Muhammad: The Emancipator of Humanity
According to the Holy Quran, Allah Almighty sent the Holy Prophet Muḥammad (ﷺ) for the guidance of humanity in this universe. He was designated as the beloved of Allah Almighty in this world and the Hereafter. As Allah Almighty stated in the Holy Quran “O, people in the world! The best example for you is the life of the Holy Prophet (ﷺ) if you want to make your lives far better and peaceful. It is declared generally for all the people in the world that whatever guidance any person needs, in any discipline or subject, he will not be disappointed. He will find proper direction and guidance if he is seeking true guidance. In that case, if any Muslim is looking for proper guidance, in any field, whether s/he is a trader or a farmer, labourer or a workman, father or a son, mother or a daughter, husband or a wife, passenger or a resident, healthy or a sick, citizen or a villager, educated or an uneducated, s/he must consult the teachings of the Holy Prophet (ﷺ). This is the reason, that, for the sake of easiness and to facilitate the Muslim Ummah, Sīrah writers (Ahl al-Siyar) have thoroughly elaborated the major aspects of the life of the Holy Prophet (ﷺ) that led to the mushrooming growth of literature on almost every aspect of Prophet’s (ﷺ) life. Therefore, any person seeking guidance from the teachings of the Holy Prophet (ﷺ) can approach biographies written by his highness, easily. After this description, I would like to state that although thousands of books have been written on the life of the Holy Prophet (ﷺ), most of them are about his struggle for Islam and the hardships He (ﷺ) had endured. These books contain the instances of Ghazawāt and Sarayā and the constant strife with the disbelievers. I felt a dire need for an English book of his biography, which encompasses almost a complete code of life, according to his teachings and his practical values to promote Islam, to save society from moral degeneration. Furthermore, the key aspects of his life have also been discussed so that the particulars of his personality are readily available to Muslims. The practical values and kinships of his personality have been highlighted in this biography, so that believers may access his personal life and model of dealing in depth. This is the best way to acknowledge and understand his relationships and real life. As, he said a good person always could be judged through his social behavior and his description of noble ethical values proves his gentleness, kindness, and religious practices. In this book, I have tried to cover practical instances of his life with multiple dimensions of his personality, keeping in mind that people can follow. Meanwhile, adherence to the authentic Aḥādīth has been maintained and the notable books of Sīrah have been consulted to adorn with actual events. Notes about honorifics and quotes, a brief glossary and a bibliography have been inscribed at the end of the book.
کتاب: نا امید مت ہوں، مصنف: ڈاکٹر یاسر فاروق ، کل صفحات: 240 ، عام قیمت: 560 روپے، کتاب ملنے کا پتا؛ حرمین اسلامک سٹور، امین پور بازار، فیصل آباد۔ فون نمبر: 03336574758
موجودہ دور کی مادی خواہشات نے بے شمار معاشرتی و معاشی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر شخص پریشان اور مایوس نظر آتا ہے۔ مزید برآں کتاب اللہ اور دین سے دوری اور اسلام پر کماحقہ عمل نا کرنے کی وجہ سے کم و بیش ہر شخص مایوسی کا شکار ہے اور فکری طور پر انحراف کا شکار ہے۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد اس وقت معاشی مسائل اور فکری بے راہ روی کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور متنوع نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں۔ زیرِ نظر کتاب انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب اللہ اور سنت رسول نیز انبیاء کرام جیسی عظیم ہستیوں کی حیاتِ مبارکہ سے راہنمائی لیتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ جس میں مصنف نے موجودہ معاشی و معاشرتی اور سیاسی انحطاط اور زبوں حالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مایوسی اور ہر سو پھیلی ناامیدی کی کیفیت کو زائل کرنے کے لیے مستند مآخذ سے راہنمائی فراہم کی ہے۔
فتح الباری تعارف و مبادیات
کتاب اللہ اور سنت رسول دینِ اسلام کے بنیادی مآخذ ہیں۔ مسلمانوں نے ان کی حفاظت و تدوین کا خوب اہتمام کیا ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ ہی سنت رسول کی حفاظت و تدوین کے لیے اہلِ علم نے ناقابلِ یقین خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس ضمن میں حدیث و سنت کے بے شمار مجموعے تالیف ہو کر منصہ شہود پر آئے۔ ان دواوینِ حدیث میں امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی الجامع الصحیح کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور یہ مجموعہ حدیث کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر صحیح ترین مجموعہ قرار پایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سولہ برس کی محنتِ شاقہ سے اس کتاب کو مرتب فرمایا اور چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے زیرِ نظر مجموعہ ترتیب دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس محنت اور خلوص کاصلہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو قبولیتِ عامہ سے نوازا۔ اب تلک اس کتاب کی سینکڑوں شروحات مرتب کی گئیں ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ صحیح البخاری کی ہر شرح علمی لطائف ومعارف سے بھرپور اور احادیثِ رسول کی خدمت اور آپ ﷺ سے محبت وعقیدت کے جذبے سے سرشار ہوکر لکھی گئی ہیں۔ لیکن تمام شروحاتِ صحیح البخاری میں جو مقام فتح الباری کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ فتح الباری حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس عظیم کتاب کی شرح میں تقریباً پچیس سال صرف کیے اور یہ شرح تیرہ (۱۳) مجلدات اورھدی الساری کے نام سے ایک جلد کے مقدمہ پر مشتمل ہے۔ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے مقدمہ میں صحیح البخاری کی عظمت کے حوالے سے لکھا تھا کہ صحیح البخاری کی شرح کا قرض امت پر باقی ہے۔ فتح الباری کی تالیف کے بعد حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا کہ امت سے یہ قرض ادا ہوگیا۔ اور پھر علماء امت کے ہاں یہ معروف ہوگیا کہ ’لا هجرة بعد الفتح‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کتاب کے شروع میں ایک مبسوط مقدمہ لکھا ہے جو خود ایک مستقل کتاب ہے۔ اس مقدمہ میں صحیح البخاری اور فتح الباری کے اسالیب اور دیگر امور سے متعلق بنیادی مباحث درج کیے ہیں۔ مقدمہ کی تکمیل کے بعد حافظ ابن حجر ؒنے اس کتاب کی تالیف کا آغاز فرمایا اور روزانہ تھوڑا تھوڑا حصہ تحریر فرماتے۔ جب ایک معتد بہ حصہ پورا ہوجاتا تو محدثین کی ایک جماعت اس کو نقل کرلیتی۔ ہر ہفتے میں ایک دن اس کتاب پر مباحثہ و معارضہ اور مقابلہ ہوتا۔ اس طرح جس قدر شرح لکھی جاتی سب کا مقابلہ کرکے مہذب کرلی جاتی اور اسے نقل کرلیا جاتا اور یوں ۸۴۲ھ میں یہ شرح مکمل ہوئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ عظیم الشان شرح اس قدر مقبول ہوئی کہ کئی سلاطین نے اسے اشرفیوں میں تول کر خریدا۔ صحیح البخاری کی طرح اسے بھی اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ عامہ عطا فرمایا۔ فتح الباری کی تالیف کے بعد جس محدث اور شارح نے بھی صحیح البخاری کی شرح لکھی، وہ فتح الباری سے مستغنی نہیں رہ سکا۔ فتح الباری سے اس قدر کثرت سے استفادہ کیا گیا کہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ ’کل من جاء بعده فهو عیاله‘ جو بھی ان کے بعد آیا انہی کی تحقیقات کا خوشہ چین رہا۔ (کشف الظنون، ج۲، ص ۵۴۷) چنانچہ آج جہاں بھی صحیح البخاری کی تدریس ہوتی ہے وہاں فتح الباری سے استفادہ اور راہنمائی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ فتح الباری کی اسی اہمیت، اہلِ علم اور طلابِ حدیث کے کثرتِ اعتناء کے پیشِ نظر ہم نے اس کے منہج و اسلوب پر قلم اٹھانے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں زیرِ نظر کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ابواب سات مقالات کی صورت میں تحریر کیے گئے ہیں۔ پہلے باب میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ کے احوال و آثار، دوم میں فتح الباری بشرح البخاری کا بطورِ خاص منہج اور اسلوبِ تحریر مع امثلہ و تجزیہ، سوم میں فتح الباری میں صحیح البخاری کی کتاب التفسیر کی شرح کے دوران تفسیر ِقرآن کا عمومی و خصوصی منہج مع تجزیہ وامثلہ، چہارم میں فتح الباری میں شرح حدیث کے دوران ظاہری طور پر متعارض احادیث میں ترجیح کا منہج و اسلوب اور دیگر محدثین کے اصولِ ترجیح کے ساتھ تقابلی مطالعہ مع امثلہ، پنجم میں فتح الباری میں بخاری کی مرویاتِ سیرت کے تناظر میں واقعات و مرویات کی تحقیق اور ترجیح کے اصول اور ان کا تحقیقی مطالعہ، ششم میں مقدمہ کے طور پر حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ کے مشہور فقہی مذاہب کی بابت موقف کا تجزیہ اور ہفتم میں فتح الباری میں فقہی مباحث کے منہج واسلوب پر مع امثلہ مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس لحاظ سے فتح الباری کے مطالعہ سے قبل اگر ان مقالات کو پیشِ نظر رکھ لیا جائے تو اس عظیم الشان شرح سے بہت زیادہ سہولت اور بہترین انداز میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اصول فقہ
شریعتِ اسلامیہ میں علمِ فقہ اور اس کی اصولی مباحث کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر علماء و محققین نے اس فن کو خوب اعتناء بخشی ہے۔ مدارس و عصری جامعات میں اس علم اور فن پر مشتمل کئی کورسز پڑھائے جارہے ہیں، بلکہ اس وقت اکثر جامعات میں فقہ اور اصول فقہ میں تخصص بھی جاری کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اہلِ مدارس اس سلسلہ میں کافی ممتاز ہیں، اس لیے کہ وہ علم الفقہ میں بلاشبہ تخصصات اور افتاء جیسے علوم پر بہت عرصہ پہلے بنیادی اور حقیقی نوعیت کا کام کرچکے ہیں، اور مزید وہ اس فن کو روز بروز عروجِ کمال پر لے جارہے ہیں۔ تاہم بعض اوقات بہت زیادہ اہمیت کے باوجود کچھ نقائص آڑے آجاتے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی بعض مدارس اور جامعات کے مبتدی طلبہ علم کو علمِ اصول فقہ سے درست طریقے سے روشناس نہیں کرایا جاتا۔ جس کی بنیادی وجہ اس درجے یا ابتدائی جماعتوں میں اصول فقہ کی معتدل اور مناسب کتب جن کا ازبر کیا جانا ممکن ہو، مفقود ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ ابتدا میں محض تعارفی کتب جن میں درست طور پر مباحثِ اصولیہ نا ہونے کے برابر ہوتی ہیں، وہ مروج ہیں۔ کوئی ایسی کتاب میسر نہیں جو اس علم کی بنیادی اور اہم ترین معلومات کو سموئے ہو، بلکہ براہِ راست طلبہ کو الوجیز فی اصول الفقہ جیسی کتب پڑھانا انہیں اس علم سے متنفر کرنے کا سبب بھی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ’الوجیز‘ تک پہنچنے کے لیے طالب علم کو پہلے چھوٹی اور سہل کتابیں پڑھائی جائیں، تاکہ ’الوجیز‘یا اس قبیل کی امہات کتب کو سمجھنے کے لیےطلبہ میں ذہنی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ اس ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے راقم نے معروف ماہرینِ تعلیم اور اساتذہ کرام کی مشاورت سے ’اصول فقہ اسلامی ‘ کے نام سے ایک نہایت مختصر اور آسا ن فہم کتاب ترتیب دی ہے، جس میں اصول فقہ کی تعریفات، دلائل اور امثلہ کے ذریعے اصولوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔اس کتاب کو متاخرین اصولیین کے طریقہ پر مدون کیا گیا ہے اور تمام تر اصولی مباحث امہات کتبِ اصولیہ سے استفادہ کرتے ہوئے درج کی گئی ہیں۔ اور اس سلسلہ میں بھرپور احتیاط اور علمی دیانت سے کام لیا گیا ہے۔ کسی بھی بحث میں نئی رائے قائم کرنے کی بجائے سلف و متقدمین کی آراء کو مقدم رکھا گیا ہے۔
مباحث تفسیر قرآن
علمِ تفسیر اور اس کی اصولی مباحث کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر علماء و محققین نے اس فن کو خوب اعتناء بخشی ہے۔ مدارس و عصری جامعات میں اس علم اور فن پر مشتمل متنوع نصابات پڑھائے جارہے ہیں، بلکہ اس وقت اکثر جامعات میں قرآنیات و تفسیر اور اصول و علوم التفسیر میں تخصص بھی جاری ہیں۔ اگرچہ جامعات اس سلسلہ میں کافی ممتاز ہیں، اس لیے کہ وہ علوم القرآن میں بلاشبہ تخصصات پر بہت عرصہ پہلے بنیادی اور تحقیقی نوعیت کا کام کرچکی ہیں، اور مزید وہ اس فن کو روز بروز عروجِ کمال پر لے جارہی ہیں۔ تاہم بعض اوقات بہت زیادہ اہمیت کے باوجود کچھ نقائص آڑے آجاتے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اکثر جامعات کے مبتدی طلبہ علم کو علمِ تفسیر و اصولِ تفسیر سے درست طریقے سے روشناس نہیں کرایا جاتا۔ جس کی بنیادی وجہ اس درجے یا ابتدائی جماعتوں میں اصول تفسیر ومتعلقہ مباحث کی معتدل اور مناسب کتب جن کا ازبر کیا جانا ممکن ہو، مفقود ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ ابتدا میں محض تعارفی کتب جن میں درست طور پر مباحثِ اصولیہ نا ہونے کے برابر ہوتی ہیں، وہ مروج ہیں۔ کوئی ایسی کتاب میسر نہیں جو اس علم کی بنیادی اور اہم ترین معلومات کو سموئے ہو۔اس ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے راقم نے معروف ماہرینِ تعلیم کی مشاورت سے ’مباحثِ تفسیرِ قرآن ‘ کے نام سے ایک نہایت مختصر اور آسا ن فہم کتاب ترتیب دی ہے، جس میں تفسیر، اصولِ تفسیر، تاریخِ تفسیر اور متعلقہ مباحث کو نہایت جامع و مانع انداز میں متعارف کروایا ہے۔